قاسم ندیم


یہ زمانہ تو حال میں کھویا
میں کہ تیرے خیال میں کھویا
آگیا ہے قرار دل کو اب
ہر گھڑی انفعال میں کھویا
بس ترا قرب ہے عزیز مجھے
میں ہوں تیرے جمال میں کھویا
بے مثالی مثال میں قائم
میں ہوں تیری مثال میں کھویا
ہر نوازش عطا ہے تیری ہی
پھر بھی خاکی کمال میں کھویا
تو کہ باطن میں ہے مرے موجود
میں ہوں ظاہر جمال میں کھویا
تو جو چاہے عروج پا جائے
ہر مسلماں زوال میں کھویا
نہ تجھے نیند ہے مگر انساں
گردشِ ماہ و سال میں کھویا
تیری رحمت بنی ہے شفقت پھر
میں جو حزن و ملال میں کھویا
تو ہی محجوب ، تو ہی ظاہر میں
عشق میرا کمال میں کھویا
مست رہتا ہے یاد میں قاسم
جوں سمندر دھمال میں کھویا